اصلی اور نسلی

 اصلی اور نسلی



مغرب کی سُنہری روشنی زمین پر پھیل رہی تھی، اور میں کرکٹ کے میدان سے فاتحانہ انداز میں واپس آیا تھا۔ بال، بیٹ، اور

 پسینے کی ملی جُلی خوشبو میرے ہمراہ تھی۔ گھر میں داخل ہوا اور معمول کے مطابق امی اور ابا کو سلام کیا۔ مگر امی کی آنکھوں میں وہ تیکھی اور جانی پہچانی نظر تھی، جو بچپن میں کسی شرارت یا نقصان کے بعد میرے استقبال کے لیے مخصوص ہوتی تھی۔ میرے اندر ایک سرد لہر دوڑ گئی—کچھ گڑبڑ تھی، ضرور تھی۔ تاہم، ابا جی نے بڑی خوش دلی اور سکون سے جواب دیا، جس سے میری گھبراہٹ میں کچھ کمی آئی۔

میں نے ابھی ہیلمٹ اور بیٹ ایک طرف رکھا ہی تھا کہ ابا کی بھرپور آواز گونجی: "بچے، تیار ہو جاؤ، چلو کھیتوں کا چکر 

لگاتے ہیں۔"




اب میری حیرانی مزید بڑھ گئی۔ یہ سب معمول کے خلاف تھا۔ شام کا وقت، فوراً کھیتوں کا چکر؟ یہ علامتیں کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھیں—جیسے کوئی طوفان آنے سے پہلے کی خاموشی ہو۔ میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا، "ابا جی، ٹھیک ہے، مگر پہلے ذرا نہا لوں۔" ابا نے فوراً پلٹ کر کہا، "نہیں، وہ واپسی پر کر لینا۔" انہونی کا احساس اب یقین میں بدل رہا تھا، لیکن میں ان کے ساتھ چل پڑا۔

سفر مکمل خاموشی میں کٹ رہا تھا۔ سڑک پر آنے جانے والے ہر شخص سے ابا بڑے تپاک اور احترام سے سلام دعا کر رہے تھے۔ وہ پکی سڑک سے مڑ کر کچے، دھول بھرے راستے پر چل دیے۔ میں ان کے قدم سے قدم ملا رہا تھا۔ اسی دوران ایک سڑک کنارے ڈھابے کے ساتھ ایک آوارہ کتا بیٹھا نظر آیا۔

ابا اچانک میری طرف مُڑے اور مسکراتے ہوئے پوچھا، "یار، تمہارا اصلی والا کتا کدھر ہے؟"

میں نے جواب دیا، "ابا جی، وہ میں نے اپنے دوست کو دے دیا تھا۔ اسے وہ بہت اچھا لگتا تھا۔"

"اچھا، تو اب نیا کتا رکھو گے یا نہیں؟" ابا نے پھر پوچھا۔

"رکھوں گا ابا جی، اگر کوئی شاندار نسل کا مل گیا تو۔"

ابا نے پلٹ کر سڑک کنارے بیٹھے اس کتے کی طرف اشارہ کیا اور بولے، "اسے ہی اُٹھا لو۔ ہے تو کتا ہی۔"

میں قہقہہ لگا کر ہنس دیا، "ابا جی! یہ ایک بے نسلا اور آوارہ کتا ہے، میں اسے کیوں رکھوں گا؟"

ابا کے چہرے پر ایک گہری، دانشمندانہ مسکراہٹ پھیلی۔ "کیا فرق ہے نسلی اور بے نسلے میں، میرے بیٹے؟ وہ بھی بھونکے گا اور یہ بھی بھونک لیتا ہے۔ ہو سکتا ہے، اس کی بھونک زیادہ اچھی ہو۔"

میں نے سنجیدگی سے بات کو آگے بڑھایا، "نہیں ابا جی، بھونک نہیں دیکھنی ہوتی۔ بہت کچھ دیکھنا ہوتا ہے۔ دیکھیں، یہ ٹھہرے گلی کے آوارہ کتے، ہر چیز میں منہ مارنے والے۔ پر اپنا کتا دیکھیں! وہ کبھی گھر کے اس حصے میں نہیں آیا جہاں آنا منع تھا، کبھی کسی برتن میں منہ نہیں مارا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی کھلا برتن پڑا ہو اور وہ اس میں سے چُپکے سے کھا لے۔ کسی کا لباس تک کبھی ناپاک نہیں کیا!"

ابا جی کی ہنسی اب ایک دبی ہوئی مسکراہٹ میں بدل گئی تھی۔ وہ بولے، "بیٹا، کچھ باتیں کتوں اور انسانوں میں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ مگر ایک شرط ہے: دونوں نسلی اور خاندانی ہوں۔"

میں نے متجسس ہو کر پوچھا، "مثلاً، ابا جی؟"

"مثلاً؟" ابا نے ٹھہر کر کہا۔ "وہ ہر برتن میں منہ نہیں مارتے۔"

پھر وہ ذرا رکے اور بولے، "تمہیں یاد ہے؟ ایک دفعہ میں نے گائے کا دودھ نکال کر یونہی رکھ دیا تھا، اور ایک آوارہ کتا باڑ پھلانگ کر اندر آ گیا تھا۔ تمہارے والے کتے نے اسے مار کر بھگا دیا تھا؟"

"جی، ابا!" میں نے فوراً کہا۔

اور پھر، ابا نے مجھے دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں وہ محبت بھری سختی تھی جو بات کو دل میں اُتار دیتی ہے۔

"بیٹا!!!" انہوں نے لہجے کو وزن دیتے ہوئے کہا۔ "ہمارے خاندان کی، گلی محلے اور گاؤں کی وہ لڑکیاں جو سکول اور کالج جاتی ہیں، یہ سب کھلے برتن ہی ہیں۔ بیٹا، اب یہ چناؤ تمہارا ہے کہ تم کیا بنو گے؟ گلی کا کوئی آوارہ کتا... یا پھر ایک اچھے خاندان کا با عزت لڑکا؟"

اور یہ سنتے ہی، ایک سرد جھٹکا میرے پورے وجود میں دوڑ گیا۔ مجھے اچانک یاد آیا کہ آج کالج سے واپسی پر میں نے ایک دوشیزہ پر جملہ کسا تھا اور ایک فضول سی سیٹی بھی ماری تھی۔

ابا جی نے انسانوں والی پیار کی زبان میں، میری "کتّے والی" کر کے مجھے بہت کچھ سمجھا دیا تھا۔

Urdu motivation, Urdu quotes, Urdu poetry, Urdu news, Urdu novels ,اردو موٹیویشن,اردو اقوال,موٹیویشنل ویڈیوز,motivational video

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !