آپ کی زندگی قیمتی ہے .

جھجک اور شرم سے زیادہ قیمتی آپ کی زندگی ہے۔ ابتدائی تشخیص صرف ایک موقع نہیں، ایک امید ہے!




! ایک ہنستی مسکراتی، اٹھائیس سالہ لڑکی، جو ایم فل سوشیالوجی کی طالبہ تھی۔ اس کی آنکھوں میں بڑے بڑے

 خواب تھے، مستقبل کی روشن کرنیں تھیں۔ مگر کون جانتا تھا کہ ایک چھوٹا سا احساس، ایک ننھی سی گانٹھ، اس کی زندگی کی بساط ہی الٹ دے گی؟

ایک دن نہاتے ہوئے نازیہ نے اپنی چھاتی میں ایک ابھار محسوس کیا۔ ذرا سا ہاتھ لگایا تو کچھ گُھٹلی سی لگی۔ کوئی درد نہیں، کوئی تکلیف نہیں۔ اس نے سوچا، "امی سے بات کروں گی اس بارے میں۔" مگر کیا کریں، زندگی کی مصروفیات میں یہ بات ذہن سے نکل گئی۔ ہفتے گزر گئے، پھر مہینے... وہ ابھار اپنی جگہ خاموش پڑا رہا، کسی گہرے سمندر کی تہہ میں چھپے طوفان کی طرح۔

جب دوبارہ خیال آیا تو امی سے ذکر کیا۔ امی نے گھریلو ٹوٹکے آزمائے۔ پیاز باندھو، وظیفہ پڑھو، زیتون کے تیل سے مالش کرو۔ نازیہ نے بھی خود کو تسلی دے دی کہ شاید فائدہ ہو رہا ہے۔ ابھار تھوڑا چھوٹا ہو گیا ہے... بس، یہ ایک نفسیاتی تسلی تھی۔ حقیقت میں وہ ابھار اپنی جگہ قائم تھا، اور اندر ہی اندر کسی بڑے خطرے کا پیش خیمہ بن رہا تھا۔

چھ مہینے گزر گئے، نازیہ تو جیسے بھول ہی گئی تھی کہ اس کے جسم میں کوئی گانٹھ ہے۔ پھر ایک دن دائیں بازو میں عجیب سا درد اٹھا۔ ایسا درد جیسے ہڈی میں کوئی سوراخ کر رہا ہو۔ درد کی دوا لی، آرام آ گیا، لیکن دوا چھوڑتے ہی درد پھر لوٹ آیا، پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ۔ ایک قریبی ڈاکٹر کے پاس گئی تو اس نے بھی یہی کہا، "جوان لڑکی ہے، کیا ہوگا؟" کیلشیئم، وٹامن ڈی اور ایک انجیکشن لگا کر گھر بھیج دیا۔ عارضی سکون ملا، مگر مسئلہ جوں کا توں رہا۔

نازیہ کو اب پریشانی ہوئی۔ یہ موئی درد جان کیوں نہیں چھوڑ رہی؟ اپنی ڈاکٹر دوست کے ذریعے سرکاری ہسپتال سے ایکسرے کروایا اور ہڈیوں کے ڈاکٹر کو دکھایا۔ ڈاکٹر نے ایکسرے دیکھتے ہی تشویش سے کہا، "اس میں کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے، اسے کینسر آؤٹ ڈور میں بھی دکھا آئیں۔" اور بس، یہیں سے میرا نازیہ سے پہلا تعارف ہوا۔

نازیہ میرے پاس آئی، سلام کیا اور ایکسرے پکڑایا۔ اس کے چہرے پر تھکاوٹ اور ایک انجانی تشویش تھی۔ میں نے ایکسرے پر نظر ڈالتے ہی ہڈی کا پوچھنے کے بجائے اس سے سوال کیا، "آپ کو جسم میں کہیں کوئی گِلٹی محسوس ہوتی ہے؟" نازیہ نے فوراً کہا، "ہاں، چھاتی میں ایک ابھار تھا، لیکن وہ وظیفے اور مالش سے بہتر ہو گیا ہے، اب 'تھوڑا سا' ہی ہے۔"

وہ "تھوڑا سا" لفظ سنتے ہی میرے اندر خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ جب میں نے اس 'تھوڑے سے ابھار' کا معائنہ کیا تو میرا دل ڈوبنے لگا۔ میں نے فوراً بائیوپسی، ہڈیوں کا اسکین اور سی ٹی اسکین تجویز کیے۔ رپورٹ آئی تو اوسان خطا ہو گئے... چوتھی اسٹیج کا انتہائی خطرناک بریسٹ کینسر، جو نہ صرف ہڈیوں تک پھیل چکا تھا بلکہ جگر، پھیپھڑوں اور ایڈرینل گلینڈز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔

نازیہ کے علاج کے اٹھارہ ماہ ایک اذیت ناک داستان بن گئے۔ زندگی کے آخری چار ماہ اس نے بستر پر گزارے، معذوری اور شدید تکلیف کے عالم میں۔ کبھی کبھار وہ اپنے دل کی باتیں کرتی۔ اس کی آنکھوں میں ادھورے خواب جھلکتے تھے... وہ شادی کرنا چاہتی تھی، ماں بننا چاہتی تھی، اپنی ڈگری مکمل کرنا چاہتی تھی، اور کچھ اور جینا چاہتی تھی۔ مگر تقدیر نے کچھ اور ہی لکھا تھا۔

نازیہ کی کہانی صرف ایک کہانی نہیں، یہ ہمارے ارد گرد بکھری ایسی بے شمار کہانیوں کا عکس ہے۔ ہر نو میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میں اس موذی مرض کا شکار ہوتی ہے۔ ہمیں اپنی خواتین کو جگانا ہوگا، انہیں سمجھانا ہوگا کہ چھاتی میں ذرا سی بھی تبدیلی محسوس ہو تو شرم یا جھجک کو بالائے طاق رکھ کر فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ اگر ہم اس بیماری کو ابتدائی اسٹیجز میں پکڑ لیں تو اللہ کی مہربانی سے اس سے نجات کے روشن امکانات ہوتے ہیں۔

اگر آپ خاتون ہیں اور آپ کو تصویر میں دکھائی گئی کوئی بھی علامت محسوس ہوتی ہے، تو فوراً کسی مستند ڈاکٹر سے معائنہ کروائیں۔ اور اگر آپ مرد ہیں، تو اپنی گھر کی خواتین کو اس بارے میں آگاہی دیں، انہیں بتائیں کہ صحت اور زندگی 

کسی بھی شرم و جھجک سے زیادہ قیمتی ہیں۔ آئیے، ہم سب مل کر ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھیں۔

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !