میری وفات کے بعد: ایک تلخ حقیقت

 میری وفات کے بعد

یہ تحریر ایک نامعلوم ڈائری سے ملی ہے، جو دل پر دستک دیتی ہے۔ ہو سکتا ہے آپ اسے پہلے پڑھ چکے ہوں، مگر حقیقت سے بھرپور یہ سچائی بار بار پڑھنے کے لائق ہے۔


ایک ٹھٹھرتی شام تھی جب میرا آخری سانس ٹوٹا۔ بارش ہو رہی تھی اور خلافِ معمول میں خاموش تھا۔ بیوی نے سُوپ لانے کے لیے باورچی خانے کا رخ کیا، اور اسی غیر حاضری میں میرا سورج غروب ہو گیا۔ مَیں نے محسوس کیا کہ میں آہستہ آہستہ 

اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں، ہوا میں تیرتا چھت کے قریب جا پہنچا۔ میں سب کچھ دیکھ رہا تھا مگر بول نہیں سکتا تھا۔




لاہور اور کراچی سے بیٹیاں پہنچ گئیں، مگر بیرون ملک بیٹوں کو آنے میں دو دن لگے۔ دوسرے دن میری تدفین ہو گئی۔ لحد میں میرے اوپر مٹی کا بوجھ میرے آرتھرائٹس کے شکار انگوٹھے میں درد کر رہا تھا۔ پھر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی، شاید فرشتے آن پہنچے تھے۔ سوال و جواب کا سیشن ہوا۔ جب کیفیت ختم ہوئی تو فرشتے نے بتایا: "تمہیں فوت ہوئے پانچ برس ہو چکے ہیں۔"


واپسی: 



فرشتوں نے مجھے دنیا میں واپس جانے کی ایک عجیب پیشکش کی: "تم کسی کو نظر نہیں آؤ گے، گھوم پھر کر اپنے پیاروں کو دیکھ لو۔" مَیں نے فوراً ہاں کر دی۔

آنکھ کھلی تو میں اپنی گلی میں تھا۔ گھر کے گیٹ پر میرے نام کی تختی غائب تھی۔ چند ہفتے پہلے خریدی گئی نئی گاڑی پورچ میں نہیں تھی۔ لائبریری میں گیا تو وہاں میری بیش قیمتی کتابیں، دادا جان کے قلمی نسخے اور شیلڈیں سب غائب، کمرہ گودام بن چکا تھا۔

نیچے گراؤنڈ فلور پر میری بیوی اکیلی کچن میں کچھ کر رہی تھی۔ پانچ سالوں میں وہ بہت بدل گئی تھی؛ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ گھٹنوں اور ایڑیوں کے درد کا پوچھ بھی نہ سکتا تھا۔

پھر فون کی گھنٹی بجی۔ بیوی بچوں سے لمبی بات کر رہی تھی۔ میں نے سمجھا کہ بچے مکان بیچنا چاہتے ہیں اور وہ بچوں کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال رہی تھی۔ میری گاڑی وہ خود ہی بیچ چکی تھی کہ اسے ایک چھوٹی آلٹو کافی ہے۔ اچانک ملازم کو دیکھا، وہ میری قیمتی برانڈڈ قمیض اور پتلون پہنے ہوئے تھا۔ میرے بہترین ملبوسات ملازموں میں تقسیم ہو چکے تھے۔

میں نے ایک سال لوگوں کی نگاہوں سے غائب رہ کر سب کو دیکھا۔ بچوں کے گھر گیا، میرا ذکر خال خال ہی ہوتا، وہ بھی سرسری سا۔ میری نواسی زینب البتہ کبھی کبھار مجھے یاد کر لیتی۔ ادبی محفلوں میں میرا نام و نشان مٹ چکا تھا۔ شاعروں، ادیبوں کے لیے مَیں تاریخ کا حصہ بن چکا تھا۔

قبرستان میں میری قبر کا برا حال تھا۔ گھاس اگی تھی اور کتبہ پرندوں کی بیٹوں سے اٹا تھا۔


حقیقت: خلا تو پیدا ہی نہیں ہوتا

ایک سال کے جائزے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میری موت سے دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا، ذرہ بھر بھی نہیں۔ بیوی کو چھوڑ کر بچے پوتے سب مجھے بھول چکے تھے۔ جن بڑے محکموں کا میں سربراہ رہا تھا، وہاں ناموں والے پرانے بورڈ ہٹ چکے تھے۔

دنیا رواں دواں تھی، اور میں تیزی سے آتی ہوئی جدید تبدیلیوں میں مکمل طور پر اَن فِٹ ہوتا۔ بچوں کی زندگیوں کے اپنے منصوبے تھے جن میں میری کوئی گنجائش نہیں تھی۔

میں نے فرشتہ سے رابطہ کیا اور اپنی آخری خواہش بتائی: میں واپس قبر میں جانا چاہتا ہوں۔

فرشتہ مسکرایا اور اس کی بات بہت مختصر اور جامع تھی:

”ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ اس کے بعد جو خلا پیدا ہو گا، وہ کبھی بھرا نہیں جا سکے گا، مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ خلا تو کبھی پیدا ہی نہیں ہوتا۔“


سوچئے، کیا آپ بھی یہ نہیں سمجھتے؟ کہ یہ گھر، یہ کاروبار، یہ سارے کام کاج آپ کی وجہ سے ہی چل رہے ہیں؟ اگر آپ نہ رہے تو دنیا رک جائے گی؟

یہ ایک وہم ہے، سراب ہے، گماں ہے اور بس۔ دنیا ہمارے جانے والوں کے بغیر بھی چل رہی تھی، اور ہمارے جانے کے بعد بھی یوں ہی چلتی رہے گی۔

سلامت اور آباد رہئے!

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !