انڈوں کا کارٹن اور عوام کی طاقت
ارجنٹائن کی ایک چھوٹی سی بستی میں ایک عام شہری روزمرہ کی خریداری کے لیے نکلا۔ وہ انڈوں کا ایک کارٹن لینے گیا۔ دکاندار نے جب قیمت بتائی تو وہ حیران رہ گیا۔ قیمت معمول سے کہیں زیادہ تھی۔
اس نے دکاندار سے وجہ پوچھی۔ دکاندار نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا:
"تقسیم کاروں نے اچانک قیمت بڑھا دی ہے۔"
شہری نے مسکرا کر انڈوں کا کارٹن واپس رکھا اور خاموش لہجے میں کہا:
"انڈے کوئی لازمی چیز نہیں… ہم ان کے بغیر بھی رہ سکتے ہیں۔"
یہ ایک شہری کا فیصلہ تھا، لیکن جلد ہی یہ سوچ پورے شہر کی ثقافت بن گئی۔ نہ کوئی احتجاج، نہ کوئی ہڑتال، نہ کوئی نعرے۔ صرف ایک بات:
"اگر کوئی کمپنی ہمیں بلیک میل کرے گی تو ہم خریدیں گے ہی نہیں۔"
نتیجہ حیران کن تھا۔
چند دنوں میں دکانوں میں پرانے انڈوں کے ڈبے سڑنے لگے۔ گودام بھر گئے۔ کمپنیوں نے سوچا یہ ضد چند دن کی ہے، لیکن عوام کے حوصلے بلند تھے۔ کسی نے انڈے نہیں خریدے۔
کمپنیاں دوہری مصیبت میں پھنس گئیں:
ایک طرف انڈے خراب ہو رہے تھے، دوسری طرف مرغیوں کو روز دانہ ڈالنا پڑ رہا تھا۔ نقصان بڑھتا گیا، بڑھتا گیا۔
آخرکار بڑے مالکان بیٹھے اور فیصلہ کیا کہ انڈوں کی قیمت واپس پرانی سطح پر لائی جائے۔ لیکن عوام خاموش نہیں ہوئے۔ بائیکاٹ جاری رہا۔
چند ہی ہفتوں میں کمپنیاں دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئیں۔ آخر میں، سب ٹی وی چینلز پر عوام سے معافی مانگی گئی اور انڈوں کی قیمت کو نہ صرف پرانی سطح پر لایا گیا بلکہ مزید ایک چوتھائی کم کر دی گئی۔
یہ کوئی افسانہ نہیں، یہ ایک سچی کہانی ہے۔
یہ بتاتی ہے کہ طاقت صرف حکومت یا کمپنیوں کے پاس نہیں ہوتی، اصل طاقت عوام کی "مرضی" اور "یکجہتی" میں ہے۔
اگر ہم چاہیں تو کسی بھی شے کی قیمت بڑھا بھی سکتے ہیں اور گرا بھی سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے صرف:
حوصلہ، ثقافت اور اجتماعی عزم۔

.jpeg)
